مطاف : کعبہ شریف کے اردگرد صاف ستھرے سنگ مرمر سے ڈھکا سفید صحن ہے، جسے آج عربی میں بھى صحن کہا جاتا ہے، وہ مسجد حرام کا حیات وروحانیت کے ساتھ دھڑکتا ہوا دل ہے، اس پاک مقام میں مسلمان ہر دور دراز علاقے سے اکٹھا ہوتے ہیں، تاکہ پرشکوہ منظر میں کعبہ کا طواف کریں، جہاں اللہ کے لیے خشوع وخضوع جلوہ افروز ہوتى ہے اور روحیں طواف، رکوع اور سجدے کے درمیان ہم آہنگ ہوتى ہیں، یہ منظر رات ودن زمانے کى ایمانی کہانیوں کو مسلسل بیان کرتا رہتا ہے۔
مطاف کى تاریخ اور تبدیلى:
شروع میں مطاف ایک محدود علاقہ تھا، جسے مکہ کے پرانے گھر گھیرے ہوئے تھے اور صرف طواف کے لیے خاص تھا، لیکن طواف کرنے والوں کى تعداد کے بڑھنے کے ساتھ مسلسل اس میں توسیعات ہوتى رہیں۔ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے اس کے اردگرد پتھر لگا کر اسے ترقى دى، پھر عہد اموى میں مسلسل اس پر توجہ مبذول کى گئى۔ پہلى مرتبہ ولید بن عبد الملک کے ہاتھوں سنگ مرمر داخل کیا گیا اور عباسى اور عثمانی خلفاء کے عہدوں میں تحسین کے کام ہوتے رہے، جنہوں نے اس کے فرش کو خوبصورت بنانے کے لیے سنگ مرمر کا استعمال کیا۔
سعودى عہد میں اور با شعور سعودى قیادت کى نگرانى میں:
مطاف نے بے مثال تعمیراتى اور روحانى ترقى کا مشاہدہ کیا، سنہ ۱۳۸۸ہجرى میں مطاف میں بڑى توسیعات کى گئیں ں، تاکہ حج اور عمرہ کرنے والوں کى بڑھتى ہوئى تعداد کو سمو سکے، مطاف کے رقبے کى توسیع کى گئى اور وہ ۶۸،۸ میٹر تک پہنچ ہوگیا، پھر سنہ ۱۳۹۹ہجرى میں اس کے رقبے میں اضافہ کیا گیا اور یہ ۸۵۰۰ میٹر مربع ہوگیا۔ اس کے فرش کو سفید صاف سنگ مرمر سے بدلا گیا، جس کى ڈیزائننگ خصوصى طور پر اس طرح کى گئى کہ وہ سخت ترین گرمى کے وقت بھى طواف کرنے والوں کے پیروں کے نیچے ٹھنڈا رہے۔
مطاف کی تعمیر میں روحانی نشانیاں
مطاف ستونوں سے مزین تھا، یہ وہ ستون تھے جو ان قندیلوں کو اٹھاتے تھے جو طواف کی راتوں کو روشن رکھتی تھیں ۔ یہ انفرادی کوششیں شروع زمانے سے چلی آرہی تھیں اور خلیفہ عبدالملک بن مروان کے زمانے تک چلتی رہیں جب مطاف کو روشن رکھنے کے لیے سب سے پہلا چراغ بنایا گيااور زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ستون ان کھمبوں کی شکل اختیارکرتے گئے جو زيادہ مضبوط اور خوب صورت تھے جن سے جگہ پر ہیبت روحانی ماحول پیدا ہوا۔
مطاف میں کئی نشانات تھے جو عمیق دینی اور تاریخی رمز کے حامل تھے جیسے زمزم کا کنواں ، سقایہ عباس ، باب بنی شیبہ جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوئے تھے ۔ نئی توسیعات کے ساتھ ان نشانات کی ترتیب اس طرح کی گئی ہے کہ ان کے تقدس کی حفاظت بھی ہو اور طواف کرنے والوں کو حرکت و خشوع کے لیے زیادہ بڑا اسپیس مل سکے ۔
جہاں تک اس منبر کی بات ہے جس پر خطباء کھڑے ہوتے ہیں کہ وہ اسلام کا پیغام پہنچائیں تو وہ زمانے کے حاب سے ترقی کرتا رہا ہے، لکڑی والے چھوٹے منبر سے لے کر جسے معاویہ بن ابو سفیان نے ہدیہ کیا تھا، پر ہیبت نقش ونگار والے منبر سے ہوتے ہوئے جسے ہارون رشید نے بھیجا تھا، سنگ مرمر والے منبر تک جسے سلطان سلیمان القانونی نے سنہ 966 ہجری میں ہدیہ کیا اور جو سونے اور چاندی سے مزین تھا، تاکہ وہ عہد سعودی میں عظیم ترین تعمیراتی تحفہ ہو، اس کی اصالت کی حفاظت کرتے ہوئے نئی ٹکنالوجیاں بڑھائی گئی ہیں تاکہ ریموٹ کنٹرول سے استعمال کیا جائے اور یوں قدیم خوب صورتی اور جدید ایجاد کا سنگم ہو ۔
جہاں تک مقامات اربعہ کی بات ہے جو متعدد مسالک کا رمز تھے تو انہیں شاہ عبدالعزيز کے عہد میں سنہ 1377 ہجری میں اسلامی صفوں کے اتحاد اور تعصب کے مظاہر کے خاتمے کے منصوبے کے تحت ہٹا دیا گيا ۔
خاتمہ
مطاف تھا اور رہے گا مسلمانوں کی روحانیت اور ان کی قدیم تاریخ کا شاہد اور ہر تبدیلی اور توسیع کے ساتھ ، رحمان کے مہمانوں کی خدمت اور ان کے لیے عبادتوں کو آسان کرنا ہی اصل محرک رہے گا، مطاف توحید کا رمز بنا رہے گا جہاں اللہ کے حرمت والے گھر کے حضور قلب و روح کا اجتماع ہوتا ہے ۔