حطیم

 

حطیم

حجر(حطیم): نصف دائرے کی شکل میں کعبہ مشرفہ کے شملا میں واقع احاطے کانام ہے حجر ۔ کہا گيا ہے کہ جب قبیلہ قریش نے کعبے کو دوبارہ بنایا ، اس نے ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد میں سے ایک ایک حصے کو عمارت کے باہر چھوڑ دیا اور اس پر پتھر رکھ دیا تاکہ یہ جانا جائے کہ یہ کعبہ کا حصہ ہے ۔

تاریخ وواقعات:

  • کعبے کی تعمیر کے وقت قریش کا کم کرنا:

    جب قریش نے کعبے کی تعمیر کی ، انہوں نے عمارت کو اس بنیاد سے کم کر دیا جس پر ابراہیم علیہ السلام نے بنا ڈالی تھی جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری قوم نے بیت اللہ کی بنیاد سے کم کردیااوراگر یہ شرک سے نئے نئے نہ نکلے ہوتے تو انہوں نے جو چھوڑ دیا تھا وہ میں پورا کردیتا۔ اسے مسلم نےروایت کیا ہے ۔

  • عبد اللہ بن زبیر کی تعدیل:

    يزید بن معاویہ کے زمانے میں کعبے میں آگ لگنے کےبعد عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کعبہ کو منہد م کردیا اور اس بنیاد پر اس کی دوبارہ تعمیر کی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا تھا اورحجر سےکعبہ تک پانچ گز بڑھا دیا اور اس کے دو دروازے بنائے۔

  • حجاج بن یوسف ثقفی کی تعدیل: ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے قتل کے بعد حجاج نے عمارت کو قریش کی پرانی شکل پر دوبارہ بنانے کا حکم دیا اور ان اضافوں کو ختم کردیا جنہیں ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے بڑھایا تھا۔

  • حجر کی لمبائی کی روایتیں : حجر کا جو حصہ بیت اللہ کا جزء سمجھا جاتا ہے اس کی لمبائی کے سلسلے میں بہت سی روایتیں ہیں ۔ ان میں سے بعض میں ہے کہ وہ پانچ گز ہے ،چھ گز ہے یا ایسا ہی کچھ ہے ۔ علماء ان روایتوں میں تطبیق دی ہے اور انہوں نے یہ طے کیا ہے کہ حجر کا صرف ایک حصہ ہی کعبہ کا حصہ ہے ۔

حجر کا طول وعرض اور اس کی پیمائش:

  • ازرقی اور فاسی کے مطابق کعبہ کی دیوار سے حجر کی دیوار تک حجر کا عرض 17 گز اور 8 انگلی ہے اور حجر کےدونوں دروازوں کے بیچ کی مسافت 20 گز ہے ۔

  • عصر حاضر میں  حجر کی لمبائی داخلی دائرے  کے نصف سے کعبے کی باہری دیوار تک8،46،5میٹر ہے ۔

تاریخ میں حجر(حطیم) کی تعمیر:

  • سب سے پہلے حجر میں خلیفہ ابو جعفرمنصور  نے سنہ 140 ہجری میں سنگ مرمر لگایا۔

  • خلیفہ مہدی نے 161 ہجری میں حجر کے سنگ مرمر کی تجدید کی۔

  • سعودی عہد میں سنہ 1397 ہجری میں بڑی توجہ سے حجر کی تجدید کی گئی ، اس کی زمین میں  یونان سے برآمد سر پتھر لگائے گئے۔ سنہ 1417 ہجری میں کعبہ کی ہمہ گير ترمیم کے موقع سے پرانے سنگ مرمر کو بدل کر نیا سنگ مرمر لگایا گيا۔

اسلام میں حجر(حطیم) کی اہمیت:

  • حجر نماز و دعا کے لیے مبارک مقام مانا جاتاہے کیوں کہ وہ کعبہ کاحصہ ہے ۔

  • کعبے کا طواف ضرور ی ہے کہ حجر کے باہر سے ہو ، اس لیے کہ وہ بیت اللہ کا حصہ ہے ۔

خاتمہ:

حِجْرِ اسماعیل اسلام کی عظیم تاریخ کی علامت ہے اور مختلف ادوار میں خانہ کعبہ کے لیے مسلمانوں کی عظیم اہتمام کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ اسلامی وراثت کا ایک حقیقی حصہ ہے، جس میں مختلف ترمیمات ہوئیں، اور یہ سب مسلمانوں کی خانہ کعبہ کے تقدس اور  اس کی حفاظت کے تئیں حرص کو ظاہر کرتی ہیں۔