نبی صلى اللہ علیہ وسلم کا منبر
"مسجد نبوى کے نمایاں نشانات میں منبر نبوى ہے، جس کى فضیلت میں کئى حدیثیں وارد ہوئى ہیں، ان میں سے آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جنت کى کیاریوں میں سے ایک کیارى ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہوگا"۔ (راوى: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ)
نیز آپ نے فرمایا: "جو شخص میرے منبر کے پاس جھوٹى قسم کھائے، وہ جہنم میں اپنا ٹھکانا بنالے، چاہے وہ قسم سبز مسواک پر ہى کیوں نہ ہو"۔(راوى: جابر رضی اللہ عنہ)
منبر کى کہانی:
شروع میں نبی صلى اللہ علیہ وسلم ایک کھجور کے تنے سے ٹیک لگاتے، جب دوران خطبہ وقت لمبا ہوتا، جیسا کہ ابو بریدہ نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر خطبہ دیتے، اور دیر تک کھڑا رہنا آپ پر دشوار ہونے لگا، تو آپ کے پہلو میں ایک کھجور کا تنا کھڑا کیا گیا، جب اسے مدینہ کے ایک آدمى نے دیکھا، تو اس نے آپ کى خدمت میں پیش کش کى کہ وہ آپ کے لیے ایک بیٹھک بنائے، جس پر آپ آرام کر سکیں، چنانچہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے منظورى دى اور آپ نے اس سے کہا کہ منبر بنائے، جب نبی صلى اللہ علیہ وسلم منبر منتقل ہوگئے، تو وہ تنا شوق میں برى طرح رونے لگا"۔
اور جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: "مسجدکى چھت کھجور کے تنوں سے بنى تھى اور نبی صلى اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے، تو ان میں سے ایک سے تنے سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے، جب آپ کے لیے منبر بنایا گیا اور آپ اس پر چڑھے، تو ہم نےاس تنے سے بچے والى اونٹى کى طرف ایک آواز سنى ، یہاں تک کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم آئے اور آپ نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا، تو وہ چپ ہوگیا"۔ (صحیح بخارى)
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے اوصاف
ابن النجار نے کہا: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کی لمبائی (اونچائی )دو گز، ایک بالشت اور تین انگلی تھی اور چوڑائی جکھا ہوا ایک گز اور اس کے مسند کی لمبائی ( اونچائی) ایک گزاور ان دو اناروں کی لمبائی جنہیں آپ اپنے مبارک ہاتھوں سے بيٹھتے وقت پکڑتے تھے ایک بالشت اور دو انگلی اور اس کے بنانے والے راجح ترین قول کے مطابق اہل علم تھے جیسا کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے کہ وہ میمون تھے اور وہ مدینہ کے بڑھئی تھے۔
تاریخ میں منبر کی ترقی کے مرحلے :
-
اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانے میں منبر دو زينوں اور ایک بیٹھنے کی سیٹ پر
-
مشتمل تھا۔ اموی دور حکومت میں ، مروان بن الحکم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت میں منبر کے چھ زينے بڑھائے اور یوں یہ زینے نو ہوگئے ۔
-
عہد عباسی میں پرانا ہونے کی وجہ سے منبر کی تجدید کی گئی ۔
-
سنہ 656 ہجری میں مسجد نبوی اور منبر جل گئے تو ملک مظفر نے نیا منبر بھیجا۔
-
سنہ 664 ہجری میں ظاہر بیبرس نے نیا منبر بھیجا اور یہ منبر 797 ہجری تک برقرار رہا۔
-
سنہ 797 ہجری میں ظاہر برقوق نے نیا منبر بھیجا۔
-
سنہ 820 ہجری میں مؤید شیخ نے نیا منبر بھیجا۔
-
سنہ 886 ہجری میں مسجد نبوی اور منبر جل گئے تو اہل مدینہ نے اینٹ سے منبر بنایا۔
-
سنہ 888 ہجری میں اشرف قایتبائی نے سنگ مرمر کا منبر بھیجا تو اس نے سابق منبر کی جگہ لے لی ۔
-
سنہ 898 ہجری میں سلطان مراد عثمانی نے خوب صورت سنگ مرمر کا منبر بھیجاجسے باریک بینی سے سجايا گیا تھا ، جس میں بارہ زینے تھے ، تین دروازے کے باہر تھے اور نو اندر اور اس کے اوپر مخروطی شکل کا لطیف محراب تھا جو چار ستونوں پر کھڑا تھا اور ابھی مسجد نبوی میں یہی منبر موجود ہے ۔