مسجد حرام کى تعمیر
"مکہ مکرمہ روئے زمین پر سب سے بہتر جگہ ہے، وہ وحى کے اترنے کى جگہ اور بعثت محمدى کا مقام ہے، اللہ تعالى نے اسے اپنے محترم گھر کے لیے چنا اور اسے مزید فضیلت اور حرمت کے ساتھ خاص کیا ہے۔
مختلف اسلامى ادوار میں حکمرانوں نے اس کو ترقى دینے میں بڑى کوششیں صرف کیں، تابناک سعودى دور میں مکہ مکرمہ نے مسجد حرام میں بڑى توسیعات کا مشاہدہ کیا، جو کہ خادم حرمین شریفین شاہ فہد بن عبد العزیز آل سعود رحمہ اللہ کى خاص توجہ کا مرکز رہى ہے، اس کا سبب حج اور عمرہ کرنے والوں کى بڑھتى ہوئى تعداد ہے، جس کا تقاضا تھا کہ مسجد حرام کے اردگرد جگہوں اور علاقوں میں آسانیاں پیدا کى جائیں اور ترقیات کے کام کیے جائیں۔
مسجد حرام کى توسیعات
پہلى توسیع:
سنہ ۱۴۰۶ہجرى میں خادم حرمین شریفین شاہ فہد بن عبد العزیز آل سعود رحمہ اللہ نے پہلى سعودى توسیع کى چھت پر گرمى سے لڑنے والے ٹھنڈے سنگ مرمر لگانے کا حکم دیا، چھت پہلے صرف بجلى کے کاموں کے لیے خاص تھى اور بجلى کے جال مختلف جگہوں میں پھیلا ہوئے تھے، جس سے نمازیوں کو رکاوٹ پیش آتى، چنانچہ انہوں نے ان جالوں کو خوبصورت گنبدوں میں جمع کرنے کا حکم دیا۔
چھت کا رقبہ ۶۱،۰۰۰مربع میٹر تک پہنچ گیا، جس میں ۹۰،۰۰۰ نمازی سما سکتے ہیں، اسى طرح چھت اور پہلى منزل تک چڑھنے اور اس سے اترنے کو آسان بنانے کے لیے پانچ الیکٹرک سیڑھیاں لگائى گئیں، اس کے علاوہ شمالى جانب سے پہلى منزل جانے اور اس سے نکلنے کے لیے پانچ اوپرى پل بنائے گئے۔
دوسرى توسیع:
۲/ صفر سنہ ۱۴۰۹ہجرى میں شاہ فہد بن عبد العزیز آل سعود رحمہ اللہ نے دوسرى سعودى توسیع کا سنگ بنیاد رکھا، یہ توسیع مسجد حرام کے مغربی جانب اس علاقے میں واقع ہے، جو "سوق صغیر" سے مشہور ہے اورعمرہ دروازہ اور شاہ عبد العزیز دروازہ کے درمیان واقع ہے۔
یہ پروجیکٹ تہ خانہ، گراؤنڈ فلور اور پہلى منزل پر مشتمل ہے، اس توسیع کى ڈیزائننگ جامع وکامل ایر کنڈشننگ کى بنیاد پرکى گئى ہے، نیز اجیاد میں کولنگ سینٹر بھى بنایا گیا، اسى طرح گرم ہوا کھینچنے اور مرکزى پلانٹ سے آنے والى ٹھنڈى ہوا پھینکنے کے لیے گول ستونوں کى تنصیبات میں سوراخ بنائے گئے ہیں۔
اس توسیع میں ۱۴ دروازے ہیں، جس سے مسجد حرام کے مجموعى دروازے ۱۱۲ تک پہنچ گئے، نیز اس کے شمال اور جنوب میں الیکٹرک سیڑھیوں کے لیے دو عمارتیں بنائى گئى ہیں، اس طرح الیکٹرک سیڑھیوں کى تعداد ۹ تک پہنچ گئى اور بھیڑ کے اوقات نماز کو آسان بنانے کے لیے مسجد حرام کے صحن کى جدت کارى کى گئى اور صحنوں میں گرمى سے لڑنے والے سنگ مرمر لگائے گئے۔
سنہ ۱۴۱۵ہجرى میں صفا ومروہ کے درمیان سعى کو آسان بنانے کے لیے صفا کے علاقے میں پہلى منزل کى توسیع کى گئى، چنانچہ صفا گنبد کے نیچے واقع صفا سوراخ کو تنگ کر دیا گیا۔ سنہ ۱۴۱۷ہجرى میں مروہ علاقے کے گرد بعض عمارتوں کو ڈھایا اور ہٹایا گیا، جس سے وہاں کا رقبہ ۲۴۵ میٹر مربع سے بڑھ کر ۳۷۵ میٹر مربع تک پہنچ گیا, نیز پہلى منزل میں مروہ سے مسعى ک کى طرف جانے والے راستے کى توسیع کى گئى۔
سنہ ۱۴۱۸ہجرى میں راقوبہ پل بنایا گیا، جو مروہ کى طرف مسجد حرام کى چھت کو راقوبہ علاقے سے جوڑتا ہے، تاکہ نقل وحرکت میں آسانى پیدا ہو، اسی طرح مقام ابراہیم علیہ السلام کے ڈھکن کى تجدید کى گئى اور اسے سونا، کریسٹل اور نقش ونگار والے شیشے سے ڈھکے پیتل سے بنایا گیا۔
تیسرى توسیع:
یہ توسیع شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز کے دور میں سنہ ۱۴۳۲ہجرى کو شروع ہوئى اور سنہ ۱۴۳۶ہجرى میں خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود حفظہ اللہ نے اس کے کام مکمل کیے اور اس کا افتتاح کیا اور آج تک اس کے کام جارى ہیں۔
توسیع کے بنیادى منصوبے:
خادم حرمین شریفین نےتیسرى سعودى توسیع کے جامع منصوبے کے تحت پانچ بنیادى منصوبوں کا افتتاح کیا اور وہ درج ذیل ہیں:
-
توسیع کى مرکزی عمارت کا منصوبہ
-
صحنوں کا منصوبہ
-
پیدل چلنے والوں کى سرنگوں کا منصوبہ
-
مسجد حرام میں خدمات کے مرکزى اسٹیشن کا منصوبہ
-
مسجد حرام کے علاقے کے اردگرد پہلے رنگ روڈ کا منصوبہ
ولی عہد صاحب السمو الملکى شہزادہ محمد بن سلمان بن عبد العزیز آل سعود حفظہ اللہ نے معائنہ کے دورے کیے، تاکہ توسیع اور بیت اللہ کے زائرین کے لیے پیش کى جانے والى خدمات سے جڑے منصوبوں میں کارگردگى کے حالات کا جائزہ لیں، ان منصوبوں کا مقصد مملکت کے وزن ۲۰۳۰ کے ضمن میں زیارت اور عمرہ کرنے والوں کا استقبال کرنے میں مسجد حرام کى گنجائش اور صلاحیت کو بڑھانا ہے۔
دیکھ بھال اور ترقى کا تسلسل:
تابناک سعودى عہد میں مسجد حرام نے جن توسیعات کا مشاہدہ کیا ہے، وہ مسجد حرام کے تئیں دانشمند سعودى قیادت کے اہتمام کو ظاہر کرتى ہیں، بڑے انداز میں ان توسیعات نے مناسک کى ادائیگى کے دوران رحمن کے مہمانوں کے تجربہ کو بہتر بنانے میں مدد کى ہے، خواہ اس کا تعلق راحت وآرام سےہو یا سلامتى سے اور اللہ تعالى کے فضل سے مسجد حرام عالم میں عظیم ترین مذہبى منصوبوں میں سے ایک واقع ہوئى ہے اور مکہ مکرمہ مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہوگیا۔
مملکت کے وزن کو پورا کرنے کے لیے حرمین شریفین اور ان کے زائرین کى خدمت اور دنیا کے تمام اطراف میں اسلام کے بلند پیغام کو پہنچانے میں مملکت سعودى عرب خیر اور ترقى سے بھرے سفر کو جارى رکھے ہوئى ہے۔